اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة الدھر

 

                                                       
۲
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام : اس  سورۃ کا نام ”الدَّہر“بھی ہے اور” الانسان“بھی ۔ دونوں نام پہلی ہی آیت کے الفاظ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ اور حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ سے ماخوذ ہیں۔

زمانۂ نزول :  اکثر مفسرین اس کو مکّی  قرار دیتے ہیں۔علامہ زمحشری، امام رازی ، قاضی بَیضاوی، علامہ نظام الدین نَیسا بوری،حافظ ابن کثیر اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اسے مکی ہی لکھا ہے، اور علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ یہی جمہور کا قول ہے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین نے پوری سُورہ کو مدنی کہا ہے، اور بعض  کا قول یہ ہے کہ یہ سُورہ ہے تو مکّی، مگرآیات۸تا۱۰ مدینے میں نازل ہوئی ہیں۔
جہاں تک اِس سورۃ کے مضامین اور اندازِ بیان کا تعلق ہے ، وہ مدنی سُورتوں کے مضامین اور اندازِ بیان سے بہت مختلف ہے، بلکہ اس پر غور کرنے سے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مکّی ہے بلکہ مکّہ معظمہ کے بھی اُس دور میں نازل ہوئی ہے جو سورہ مُدَّثِّر کی ابتدائی سات آیا تکے بعد شروع ہوا تھا۔ رہیں آیات ۸ تا ۱۰(وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ سے لے کر یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْراً تک) تو وہ پُوری سُورۃ کے سلسلہ میں بیان میں اِس طرح پیوست ہیں کہ سیاق وسباق کے ساتھ کوئی  اُن کو پڑھے تو ہر گز یہ محسوس نہیں کر سکتا  کہ اِن سے پہلے اور بعد کا مضمون تو ۱۵۔۱۶ سال پہلے نازل ہوا تھا اور اُس کے کئی سال بعد نازل ہونے والی یہ تین آیتیں یہاں لا کر ثبت کر دی گئیں۔
دراصل جس بنا پر اِس سورۃ کے ، یا اس کے بعض آیات کے مدنی ہونے کا خیال پیدا ہوا ہے وہ ایک روایت ہے جو عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرات حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما بیما ر ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے  صحابہ ؓ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بعض صحابہؓ نے حضرت علیؓ کو مشورہ دیا کہ آپ دونوں بچوں کی شفا کے لیے اللہ تعالیٰ سے کوئی نذر مانیں۔ چنانچہ حضرت علی ؓ، حضرت فاطمہ ؓ اور ان کی خادمہ فِضّہؓ نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے دونوں بچوں کو شفاء عطا فرمادی تو یہ سب شُکرانے کے طور پر تین دن کے روزے رکھیں گے۔ اللہ فضل ہوا کہ دونوں دتندرست ہوگئے اور تینوں صاحبوں نے نذر کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت علی ؓ کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ انہوں نے تین صاع جَو قرض لیے( اور ایک روایت میں ہے کہ محنت مزدوری کر کے حاصل کیے)۔ پہلا روزہ کھول کر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک مسکین نے کھانا مانگا۔ گھر والوں نے سارا کھانا اسے دے دیا اور خود پانی پی کر سو رہے۔ دوسرے دن پھر افطار کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک یتیم آگیا اور اس نے سوال کیا۔ اُس روز بھی سارا کھانا انہوں نے  اُس کو دے دیا اور پانی پی کر سو رہے۔ تیسرے دن روزہ کھول کر ابھی کھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ ایک قیدی نے آکر وہی سوال کر دیا اور اُس روز  کا بھی پُورا کھانا اسے دے دیا گیا۔ چوتھے روز حضرت علیؓ دونوں بچوں  کو لیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ؐ نے دیکھا کہ بُھوک کی شدّت سے تینوں باپ بیٹوں کا بُرا حال ہورہا ہے۔ آپؐ اُٹھ کر اُن کے ساتھ حضرت فاطمہؓ کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی ایک کونے میں بھوک سے نڈھال پڑی ہیں۔ یہ حال دیکھ کر حضورؐ پر رقت طاری ہو گئی۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لیجیے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اہلِ بیت کے معاملہ میں آپ کو مبارک باد دی ہے ۔ حضورؐ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں یہ پوری سورۃ آپ کو پڑھ کر سنائی (ابن مہران کی روایت  میں ہے کہ آیت اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ سے لے کر آخر تک کی آیات سنائیں۔ مگر ابن مَرْ دُویہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آیت  وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ..... حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی ٰ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اِس قصّے کا اُس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ پُورا قصّہ علی بن احمد الواحِدی نے اپنی تفسیر البسیط میں بیان کیا ہے اور غالباً اُسی سے زَمَخْشَری، رازی اور نَیسا بوری وغرہ ہم  نے اس سے نقل کیا ہے۔
یہ روایت اوّل تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے۔ پھر درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آکر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پُورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں کے کھانے پر اکتفا کر سکتے تھے۔ پھر یہ بھی باور کرنا مشکل ہے کہ دو بچے جو ابھی ابھی بیماری سےاٹھے تھے اور کمزوری کی حالت میں تھے، انہیں بھی تین دن بھوکا رکھنے کو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی کامل فہیم دین رکھنے والی ہستیوں نے نیکی کا کام سمجھا ہوگا۔ اِس کے علاوہ قیدیوں کے معاملہ میں طریقہ اسلامی حکومت کے دَور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وہ اگر حکومت کی قید میں ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی، اور کسی شخص کے سُپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں کھلانے پلانے کا ذمّہ دار ہوتا تھا۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا۔ تاہم اِن تمام نقلی اور عقلی کمزوریوں کو نظر انداز کرکے اگر اِس قصّے کو بالکل صحیح ہی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اِس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس نیک عمل کا صُدُور ہوا تو جبریلؑ نے آکر  حضورؐ کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  آپ کے اہلِ بیت کا یہ فعل بہت مقبول ہوا ہے، کیونکہ اُنہوں نے ٹھیک وہی پسند یدہ کام کیا ہے جس کی تعریف اللہ تعالی  ٰ نے سُورہ دہر کی اِن آیات میں فرمائی ہے۔ اِس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ آیات نازل بھی اِسی موقع پر ہوئی تھیں۔ شانِ نزول کے بارے میں بہت سی روایات کا حال یہی ہے کہ کسی آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو دراصل اس سے مُراد یہ نہیں ہوتی کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اُسی وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اِس واقعہ پر ٹھیک چسپاں ہوتی ہے۔ امام سُیُوطیِ نے اِتقان میں حافظ ابنِ تَیِمیہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”راوی جب یہ کہتےہیں کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے تو کبھی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہی معاملہ اس کے نزول کا سبب ہے ، اور کبھی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے اگرچہ وہ اس کے نزول کا سبب نہ ہو“۔ آگے چل کر وہ امام بدرالدین زَرْکَشِی کا قول اُن کی کتاب البُرہان فی علوم القرآن سے نقل کرتے ہیں کہ ”صحابہؓ اور تابعین کی یہ عادت معروف ہے کہ ان میں سے کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا حکم  اس معاملہ پر چسپاں ہوتا ہے ، نہ یہ ک وہی اِس واقعہ کے نزول کا سبب ہے۔پس دراصل اُس کی نوعیت آیت کے حکم سے استدلال کی ہوتی ہے نہ کہ بیانِ واقعہ کی“(الاِتقان فی علوم القرآن، جلد اوّل، صفجہ ۳۱، طبع۱۹۲۹ء)۔   

موضوع اور مضمون:اِس سُورہ کا موضوع انسان کو دنیا میں اُس کی حقیقی حیثیت سے آگاہ کرنا اور یہ بتا نا ہے کہ اگر وہ اپنی اِس حیثیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر شکر کا رَویّہ اختیار کر ے تو اس کا انجام کیا ہو گا اور کفر کی راہ چلے تو کس انجام سے وہ  دو چار ہوگا۔ قرآن کی بڑی سُورتوں میں تو یہ مضمون بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، لیکن ابتدائی مکّی دور کی سُورتوں کا یہ خاص اندازِ بیان ہے کہ جو باتیں بعد کے دَور میں مفصّل ارشاد ہوئی ہیں، وہی اِس دور میں بڑے مختصر مگر انتہائی مؤثر طریقے سے ذہن نشین کرائی گئی ہیں اور ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت فقرے استعمال کیے گئے ہیں جو سننے والوں کی زبان پر خود بخود چڑھ جائیں۔
اس میں سب سے پہلے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب وہ کچھ نہ تھا، پھر ایک مخلوط نطفے سے اُس کی ایسی حقیر سی ابتدا کی گئی کہ اُس کی ماں تک کو خبر نہ تھی کہ اُس کے وجود کی بنا پڑگئی ہے اور کوئی اُس خوردبینی وجود کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی انسان ہے جو آگے چل کر اِس زمین پر اشرف المخلوقات بننے والا ہے۔ اس کے بعد انسان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تیری تخلیق اِس طرح کر کے تجھے یہ کچھ ہم نے اس لیے بنایا ہے کہ ہم دنیا میں رکھ کر تیرا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے دوسری مخلوقات کے بر عکس تجھے ہوش گوش رکھنے والا بنایا گیا اور تیرے سامنے شُکر اور کُفر کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے گئے تا کہ یہاں کام کرنے کا جو وقت تجھے دیا گیا ہے اس میں تو دکھا دے کہ اس امتحان سے تو شاکر بندہ بن کر نکلا ہے یا کافر بندہ بن کر۔
پھر صرف ایک آیت میں دو ٹوک طریقہ سے بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اِس امتحان سے کافرین کر نکلیں گے اُنہیں آخرت میں کیا انجام دیکھنا ہوگا۔
اس کے بعد آیت نمبر ۵ سے ۲۲ تک مسلسل اُن انعامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے جن سے وہ لوگ اپنے رب کے ہاں نوازے جائیں گے جنہوں نے یہاں  بندگی کا حق ادا کیا ہے۔ اِن آیات میں صرف اُن کی بہترین جزاء بتا نے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختصراً یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اُن کے وہ کیا اعمال ہیں جن کی بنا پر وہ اِس جزا کے مستحق ہوں گے ۔ مکی دور کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُن میں اسلام کے بنیادی عقائد اور تصورات کا مختصر تعارف کرنے کے ساتھ ساتھ کہیں وہ اخلاقی اوصاف اور نیک اعمال بیان کیے گئے ہیں جو اسلام کی نگاہ میں  قابلِ قدر ہیں، اور کہیں اعمال و اخلاق کی اُن برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اسلام انسان کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اِس لحاظ سے بیان نہیں کی گئی ہیں کہ ان کا کیا اچھا یا بُرا نتیجہ دنیا کی اِس عارضی زندگی میں نکلتا ہے، بلکہ صرف اِس حیثیت سے  اُن کا ذکر کیا گیا ہے کہ آخرت کی ابدی اور پائیدار زندگی میں اُن کا مستقل نتیجہ کیا ہو گا قطع نظر اس سے کہ دنیا میں کوئی بُری صفت مفید  ہو یا کوئی اچھی صفت نقصان دہ ثابت ہو۔
یہ پہلے رکوع کا مضمون ہے۔ اس کے بعد دوسرے رکوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دراصل یہ ہم ہی ہیں جو اِ س قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تم پر نازل کر رہے ہیں، اور اس سے مقصود حضورؐ کو نہیں بلکہ کفار کو خبر دار کرنا ہے کہ یہ قرآں محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے دل سے  نہیں گھڑ رہے ہیں بلکہ اس کے نازل کرنے والے”ہم“ہیں اور ہماری حکمت ہی اِس کے مقتضی ہے کہ اسے یک بار گی  نہیں بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کریں۔ دوسری بات حضورؐ سے یہ فرمائی گئی ہے کہ تمہارے رب کا فیصلہ صادر ہونے  میں خواہ کتنی ہی دیر لگے، اور اس دوران میں تم پر خواہ کچھ ہی گزر جائے، بہر حال تم صبر کے ساتھ اپنا فریضہ رسالت انجام دیے چلے جا ؤ  اور کبھی اِن بد عمل اور مُنکرِ حق لوگوں میں سے کسی کے دبا ؤ میں نہ آ ؤ۔ تیسری بات آپ  سے یہ فرمائی گئی ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرو، نماز پڑھو اور راتیں اللہ کی عبادت میں گزار رو،کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے کفر کی طغیانی کے مقابلہ میں اللہ کی طرف بلانے والوں کو ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے۔
پھر ایک فقرے میں کُفّار کے غَلَط رَویّے کی اصل وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آخرت کو بُھول کر دنیا پر فریفتہ ہوگئے ہیں ، اور دوسرے فقرے میں اُن کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم خود نہیں بن گئے ہو، ہم نے تمہیں بنایا ہے، یہ چوڑے چکلے سینے اور مضبوط ہاتھ پا ؤں تم نے خود اپنے لیےنہیں بنا لیے ہیں، ان کے بنا نے والے بھی ہم ہی ہیں، اور یہ بات ہر وقت ہماری قدرت میں ہے کہ جو کچھ ہم تمہارے ساتھ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ تمہاری شکلیں بگاڑ سکتے ہیں۔ تمہیں ہلاک کرکے کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ لا سکتے ہیں۔ تمہیں مار کر دوبارہ جس شکل میں چاہیں تمہیں پیدا کر سکتے ہیں۔
        آخر میں کلام اس بات پر ختم کیا گیا ہے یہ کہ ایک کلمہ نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اسے قبول کر کے اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ مگر دنیا میں انسان کی چاہت ہی سکب کچھ نہیں ہے۔ کسی کی چاہت بھی پوری نہیں ہو سکتی جب تک اللہ نہ چاہے، اور اللہ کی چاہت اندھا دُھند نہیں ہے، وہ جو کچھ بھی چاہتا ہے اپنے علم اور اپنی حکمت کی بنا پر چاہتا ہے۔ اِس علم اور حکمت کی بنا پر جسے وہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھتا ہے اسے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے ، اور جسے وہ ظالم پاتا ہے اس کے لیے درد ناک عذاب کا انتظام  اس نے کر رکھا ہے۔

www.tafheemulquran.net