اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۴

اصل میں فرمایا گیا ہے”ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا“۔ اِس کا مفہوم صحیح طور پر ”ہوش گوش رکھنے والا بنایا“ سے ادا ہوتا ہے ، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی”سننے والا“اور بصیر کے معنی”دیکھنے والا“کیے ہیں۔ اگرچہ عربی زبان کے اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی داں جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے، حالانکہ وہ بھی سُننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے۔ پس سُننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مراد انسان کو  وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے ۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں اُن حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیے گئے ہیں  کیونکہ اس کے ہر حاسّہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر اُن سے نتائج نکالتا ہے، رائے قائم کرتا ہے، اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے۔لہٰذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اِسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تا کہ وہ امتحان دینے کے قابل ہو سکے ۔ ظا ہر ہے کہ اگر مقصود ِکلام یہ نہ ہو اور سمیع اور بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے، حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔