اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۵

یعنی ہم نے اسے محض علم وعقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کہ تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ شُکر کا راستہ کونسا ہے اور کُفر کا راستہ کونسا، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمّہ دار وہ خود ہو۔ سُورہ بَلَد میں یہی مضمون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۔”اور ہم نے اسے دونوں راستے (یعنی خیر وشر کے راستے)نمایاں کر کے بتا دیے۔“اور سوری شمس  میں یہی بات اِسطرح بیان کی گئی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰ ھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا،”اور قسم ہے(انسان کے )نفس کی اور اُس ذات کی جس نے اُسے (تمام ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ) اُستوار کیا، پھر اُس کا فُجور اور اُس کا تقویٰ دونوں اُس پر الہام کردیے“۔ اِن تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے، اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے اُن تفصیلی بیانات کو بھی نگا ہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے انسان کو  ہدایت کے لیے دنیا میں کیا اکیا انتظامات کیے ہیں، تو معلو م ہو جاتا ہے کہ اِس آیت میں ”راستہ دکھانے“سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدّ ونہایت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:
(۱)      ہر انسان کو علم وعقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حِس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور بُرائی میں امتیاز کرتا ہے، بعض افعال اور اوصاف کو بُرا جانتا ہے اگر چہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال واوصاف کو اچھا جانتا ہے۔ اگرچہ وہ خود اُن سے اجتناب کر رہا ہو۔حتٰی کہ جِن لوگوں نے اپنی اغراض و خواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جن کی بنا پر بہت سی برائیوں کو  اُنہوں نے اپنے لیے حلال کر لیا ہے ، اُن کا حال بھی یہ ہے کہ وہی بُرائیاں اگر کوئی دوسرا اُن کے ساتھ کر ے تو وہ اُس پر چیخ اُٹھتے ہیں اور اُس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے جُھوٹے فلسفوں  کے باوجود حقیقت میں وہ اُن کو بُرا ہی سمجھتے  ہیں ۔ اِس طرح نیک  اعمال و اوصاف کو خاہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیا نوسیت ہی قرار دے رکھا ہو، لیکن جب کسی انسان سے خود اُس کی ذات کو کسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی فطرت قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
(۲)      ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفس لوّامہ) نام کی ایک  چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اُس موقع پر ٹوکتی ہے جو وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کر چکا ہو۔ اِس ضمیر  کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سُلاے ، اور اس کو بے حِس بنا نے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لے، لیکن وہ اسے بالاک فنا کر دینے پر قادر نہیں ہے، وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کر سکتا ہے ، وہ حجّتیں بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کر سکتا ہے، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بیشمار عذرات تراش سکتا ہے، مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں جو مُحاسِب بِٹحا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی بُرے انسان سے یہ بات چُھپی نہیں رہتی  کہ وہ حقیقت میں کیا ہے۔ یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ ”انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے  خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے“(آیت۱۵)۔
(۳)     انسان کے اپنے وجود میں اور اُس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بے شمار نشانیا ں پھیلی ہوئی ہیں جو خبر دے رہی ہیں کہ یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں ہو سکتا ، نہ بہت سے  خدا اِس کا رخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آفاق اور  اَنْفُس کی یہی نشانیاں  قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر ہی ہیں۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کر لے ، یا اپنی عقل سے کام لے کر اِن پر غور نہ کرے ، یا جن حقائق کی نشان دہی یہ کر رہی ہیں اُن کو تسلیم کرنے سے جی چُرائے تو یہ اس کا اپنا قصُور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تو حقیقت  کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
(۴)     انسان کی اپنی زندگی میں ،اُس کی ہم عصر دنیا میں، اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجر بات میں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالا تر حکومت اُس پر اور ساری کائنات پر فرمانروا ئی کر رہی ہے، جس کے آگے وہ بالکل بے بس ہے، جس کی مثیت پر چیز پر غالب ہے، اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی ہیں اِس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں ہیں، بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں بھی اُس بالا تر حکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہر یہ بھی بُرا وقت آنے پر خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، اور سخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خدا ؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے۔
(۵)      انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جُرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے اِسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اخلاق اور قانون ِ مُکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں بے شمار جرائم  ایسے ہیں جن کی پُوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جا سکتی، اور بے شمار خدمات بھی ایسی ہیں جن کا پورا صلہ تو کیا، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، الّا یہ کہ کوئی بے وقوف یہ فرض کر لے، یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے سے خالی ہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب اُس کے ذمّہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصوّر آخر آ کہاں سے گیا؟

(۶)      ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی صریح اور واضح رہمنائی کے لیےدنیا میں انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتا دیا گیا  کہ شُکر کی راہ کونسی ہے اور کُفر کی راہ کونسی اور ان دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔ انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات ، بے شمار محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور، آخرت کے تصوّر، نیکی اور بدی کے فرق ، اور اُن کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی ہے، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اُسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔ آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں کے منکر ہیں، یا ان سے بالکل بے خبر ہیں ، وہ بھی اُن بہت سی چیزوں کی پیروی کر رہے ہیں جو دراصل اُنہی کی تعلیمات سے چَھن چَھن کر اُن تک پہنچتی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اِن چیزوں کا اصل ماخذ کونسا ہے۔