اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۲۴

سورہ کہف آیت ۳۱ میں فرمایا گیا ہے یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَا وِرَمِنْ ذَھَبٍ۔”وہ وہاں سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے “۔ یہی مضمون سورہ حج آیت۲۳، اور سورہ فاطر آیت ۳۳ میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو  سونے کے کنگن پہنیں گے اور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسبِ خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کے ملا دینے سے حسن دوبالا ہو جاتا ہے، تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔ رہا یہ سوال کہ زیور تو عورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اور رئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں بر طانوی ہندکے راجا ؤں اور نوابوں تک میں یہ  دستور رائج رہا ہے۔ سورہ زَخْرُف میں  بیان ہوا ہے کہ حضرت موسٰی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس سے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَھَبٍ اَوْجَآ ءَ مَعَہُ الْمَلٰئکِۃُ مُقْتَرِنِیْنَ    (آیت۵۳)۔یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کی طر ف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر ہی اس کی اردلی میں آتا۔