سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۱ |
|
پہلا فقرہ ہے ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھَلْ کو قَدْ کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بے شک یا بلا شُبہ انسان پر ایسا وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھَلْ عربی زبا ن میں ”کیا“کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا، بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اِس انداز میں کرتے ہیں کہ ”کیا یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے“؟ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتےہیں اور اِس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ ”کیا میں نے تمہاری رقم ادا کر دی“؟ اور کبِ ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اِس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جو لازماً اُس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں ”کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی بُرائی نہیں کی ہے، بلکہ اُسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بُرائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں بُرائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں ۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اِسی آکری معنی میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقع اُس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اُس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پُورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہوگا؟ |