اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم |
سورة عبس |
رکوع | ||||||||||||||||||||||||||||||
نام :پہلے ہی لفظ عَبَسَ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول :مفسرین و محدّثین نے بالاتفاق اِس سُورہ کا سببِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مکّہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؐ اُن کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرمارہے تھے۔ اتنے میں ابنِ اُمِّ مکتوم نامی ایک نابینا حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورؐ کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے اُن سے بے رُخی برتی۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سُورہ نازل ہوئی۔ اِس تاریخی واقعہ سے اِس سُورہ کا زمانہ نزول بآسانی متعیّن ہو جاتا ہے۔ موضوع اور مضمون:بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیان دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نا بینا سے بے رُخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اِس سورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا گیا ہے۔ لیکن پُوری سُورۃ پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عِتاب کفارِ قریش کے اُن سرداروں پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبُّر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغِ حق کو حقارت کے ساتھ رد کر رہے تھے، اور حضورؐ کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اُس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں آپ کو اختیار فرمار ہے تھے۔ آپ کا ایک نابینا سے بے رُخی بر تنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں کا معزّز اور ایک بیچارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے، اور معاذ اللہ یہ کوئی کج خُلقی آپؐ کے اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ بلکہ معاملہ کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی عورت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر اس کا رُحجان اِس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے با ثر لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں تا کہ کام آسان ہو جائے، ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں میں دعوت پھیل بھی جائے تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی طرز عمل ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرّک سراسر اخلاص اور دعوت ِ حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگو ں کو تعظیم اور چھوٹے لوگوں کی تحقیر کا تخیُّل۔ لیکن اللہ تعالی ٰ نے آپ کو سمجھا یا کہ اسلامی دعوت کو صحیح طریقہ یہ نہیں ہے، بلکہ اِس دعوت کے نقطئہ نظر سے ہر وہ انسا ن اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور ، بے اثر، یا معذور ہو، اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ اس لیے آپ اسلام کی تعلیمات تو ہانکے پکارے سب کو سنا ئیں ، مگر آپ کی توجہ کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جن میں قبولِ حق کی آمادگی پائی جاتی ہو، اور آپ کی بلند پایہ دعوت کے مقام سے یہ بات فروتر ہے کہ آپ اِسے اُن مغرور لوگوں کے آگے پیش کریں جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہوں کہ اُن کو آپ کی نہیں بلکہ آپ کو اُن کی ضرورت ہے۔ |
www.tafheemulquran.net |
جلد ششم | اگلا رکوع
| پچھلا رکوع
|
رکوعھا1 |
|
سورة عبس مکیة
|
اٰیاتُھَا 42 |
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اِس با ت پر کہ وہ اندھا اُس کے پاس آگیا۔1 تمہیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سُدھرے تو تم پر اُس کی کیا ذمّہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رُخی برتتے ہو۔ 2 ہر گز نہیں، 3 یہ تو ایک نصیحت ہے، 4 جس کا جی چاہے اِسے قبول کر ے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرَّم ہیں، بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں، 5 معزّز اور نیک کاتبوں 6 کے ہاتھوں میں رہتے ہیں۔ 7 |
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ۰۰۱اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰىؕ۰۰۲وَ مَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰۤىۙ۰۰۳اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰىؕ۰۰۴اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰىۙ۰۰۵فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰىؕ۰۰۶وَ مَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰىؕ۰۰۷وَ اَمَّا مَنْ جَآءَكَ يَسْعٰىۙ۰۰۸وَ هُوَ يَخْشٰىۙ۰۰۹فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰىۚ۰۰۱۰كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌۚ۰۰۱۱فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗۘ۰۰۱۲فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍۙ۰۰۱۳مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۭۙ۰۰۱۴بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍۙ۰۰۱۵كِرَامٍۭ بَرَرَةٍؕ۰۰۱۶قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗؕ۰۰۱۷مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗؕ۰۰۱۸مِنْ نُّطْفَةٍ١ؕ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗۙ۰۰۱۹ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗۙ۰۰۲۰ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ۰۰۲۱ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗؕ۰۰۲۲كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗؕ۰۰۲۳فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤۙ۰۰۲۴اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّاۙ۰۰۲۵ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّاۙ۰۰۲۶فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّاۙ۰۰۲۷وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًاۙ۰۰۲۸وَّ زَيْتُوْنًا وَّ نَخْلًاۙ۰۰۲۹وَّ حَدَآىِٕقَ غُلْبًاۙ۰۰۳۰وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ۰۰۳۱مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْؕ۰۰۳۲فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُٞ۰۰۳۳يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِۙ۰۰۳۴وَ اُمِّهٖ وَ اَبِيْهِۙ۰۰۳۵وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِيْهِؕ۰۰۳۶لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِؕ۰۰۳۷وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ۰۰۳۸ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌۚ۰۰۳۹وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌۙ۰۰۴۰تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌؕ۰۰۴۱اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُؒ۰۰۴۲ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع | پچھلا رکوع |