اس رکوع کو چھاپیں

سورة عبس حاشیہ نمبر۲

یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے معاملہ میں اِس موقع پر نظر انداز کر دیا تھا، اور اسی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ابن امّ مکتوم ؓ کے ساتھ آپ کے طرزِ عمل پر گرفت فرمائی، پھر آپ کو بتایا کہ داعیِ حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے۔ ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالب ِ حق ہے، اِس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ باطل کی پیروی کرکے خدا کے غضب میں مبتلا نہ ہو جائے، اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے  ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویّہ صریحاً یہ ظاہرکر رہا ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ اُسے راہ راست بتائی جائے۔ اِن دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سُدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اِس متاعِ گراں ما یہ  کا سرے سے قدر دان ہی نہیں ہے۔ پہلی قسم کا آدمی، خواہ اندھا ہو، لنگڑا ہو ، لُولا ہو، فقیر بے نوا ہو، بظاہر دین کے فروغ میں کوئی بڑی خدمت انجام دینے کے قابل نظر نہ آتا ہو، بہر حال داعی حق کے لیے وہی قیمتی آدمی ہے، اُسی کی طرف اُسے توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ اِس دعوت کا اصل مقصد بندگانِ خدا کی اصلاح ہے، اور اُس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اُسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کر لے گا۔ رہا دوسری قسم کا آدمی، تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی با اثر ہو، اُس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ سدھرنا نہیں چاہتا، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے، وہ اگر نہ سُدھرنا چاہے تو نہ سُدھرے، نقصان اس کا اپنا ہوگا، داعی حق پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہیں۔