اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم |
سورۃ المنٰفقون |
رکوع | ||||||||||||||||||||||||||||||
نام: پہلی آیت کے فقرہ اِذَاجَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ سے ماخوذ ہے۔ یہ اس سورۃ کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں منافقین ہی کے طرز عمل پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ زمانہ نزول: جیسا کہ ہم آگے چل کر بتائیں گے ، یہ سورۃ غزوہ بنی المُصطَلِق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی پر یا تو دوران سفر میں نازل ہوئی ہے ، یا حضورؐ کے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد فوراً ہی اس کا نزول ہوا ہے۔ اور ہم سورہ نور کے دیباچے میں یہ بات بتحقیق بیان کر چکے ہیں کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان 6 ھجری میں واقع ہوا تھا۔ اس طرح اس کی تاریخ نزول ٹھیک ٹھیک متعین ہو جاتی ہے۔ تاریخی پس منظر: جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔ بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسبع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے ایک کا نام جہجاہ بن مسعود غِفاری تھا جو حضرت عمرؓ کے ملازم تھے اور ان کا گھوڑا سنبھالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور دوسرے صاحب سنان بن وَبَرالجہنی ۱؎ تھے جن کا قبیلہ خز رج کے ایک قبیلے کا حلیف تھا۔ زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہیں اَوس اور خز رج کے لوگوں کو بھڑکانا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی اور اسی جگہ انصار و مہاجرین آپس میں لڑ پڑتے جہاں ابھی ابھی وہ مل کر ایک دشمن قبیلے سے لڑے تھے اور اسے شکست دے کر ابھی اسی کے علاقے میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکل آئے اور آپ نے فرمایا : ما بالُ دعوی الجاھلیۃ؟ مالکم ولدعوۃ الجاھلیۃ؟ دعوھا نانھا مُنْتِنَۃ‘‘۔ یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے ‘‘۔ ۲؎ اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کا دیا اور سِنان نے جہجاہ کو معاف کر کے صلح کر لی۔ اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ’’اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے ، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں۳؎ کے مدد گار بن گئے ہو ‘‘۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا ’’ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے ، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں (یا اصحاب محمدؐ ) کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرتا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا بنے وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘۔ مجلس میں اتفاق سے حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کی، اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے ، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضرت نے زید کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔۴؎ حضورؐ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تمہیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زید نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضورؐ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضورؐ، لڑکے کی بات ہے۔ شاید اسے وہم ہو گیا ہو۔ یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمایئے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زید کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضورؐ زید کو بھی جانتے تھے اور عبداللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر عرض کیا ’’ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے یہ جازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے معاذ بن جبل، یا عبّاد بن بشر، یا سعد بن معاذ، یا محمد بن مسلمہ کو حکم دیجیے۵؎ ۔ کہ وہ اسے قتل کر دیں ‘‘۔ مگر حضورؐ نے فرمایا، ’’ ایسا نہ کرو، لوگ کہیں گے کہ محمدؐ کے معمول کے لحاظ سے وہ کوچ کا وقت نہ تھا۔ مسلسل 30 گھنٹے چلتے رہے یہاں تک کہ لوگ تھک کر چور ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا اور تھکے ہوئے لوگ زمین پر کمر ٹکاتے ہی سو گئے۔ یہ آپ نے اس لیے کیا کہ جو کچھ مُرَیْسیْع کے کنوئیں پر پیش آیا تھا اس کے اثرات لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائیں۔ راستے میں انصار کے ایک سردار حضرت اُسید بن حضیر آپ سے ملے اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، آج آپ نے ایسے وقت کوچ کا حکم دیا جو سفر کے لیے موزوں نہ تھا اور آپ کبھی ایسے وقت میں سفر کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے ‘‘؟ حضورؐ نے جواب دیا، ’’ تم نے سنا نہیں کہ تمہارے ان صاحب نے کیا گوہر افشانی کی ہے ؟’’ انہوں نے پوچھا کون صاحب؟ فرمایا عبداللہ بن ابی۔ انہوں نے پوچھا اس نے کیا کہا؟ فرمایا ’’ اس نے کہا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا، ’’ یا رسول اللہ، خدا کی قسم، عزت والے تو آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے ، آپ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں ‘‘۔ رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا رک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی مانگو۔مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’ تم نے کہا کہ ان پر ایمان لاؤ۔ میں ایمان لے آیا تم جے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دو۔ میں نے زکوٰۃ بھی دے دی۔ اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمدؐ کو سجدہ کروں ‘‘۔ ان باتوں سے اس کے خلاف مومنین انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے ، بن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے ،’’ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہ دیں ’’۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا،’’ خز رج کے لوگو ! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ‘‘۔ لوگوں نے یہ خبر حضورؐ تک پہنچائی اور آپ نے فرمایا ’’ عبداللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے ‘‘۔ عبد اللہؓ نے کہا ’’ ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں ‘‘۔ اس وقت حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، ’’ کیوں عم، اب تمہارا کیا خیال ہے ؟ جس وقت تم نے کہا تھا کہ مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیجیے اس وقت اگر تم اسے قتل کر دیتے تو بہت سی ناکیں اس پر پھڑ کنے لگتیں۔ آج اگر میں اس کے قتل کا حکم دوں تو اسے قتل تک کیا جا سکتا ہے ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا، ’’ خدا کی قسم اب مجھے معلوم ہو گیا کہ اللہ کے رسول کی بات میری بات سے زیادہ مبنی بر حکمت تھی‘‘۔۶؎ یہ تھے وہ حالات جن میں یہ سورت، اغلب یہ ہے کہ حضورؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی۔ |
|
۱؎ دونوں اصحاب کے نام مختلف روایات میں مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ہم نے یہ نام ابن ہشام کی روایت سے لیے ہیں واپس |
|
۲؎ یہ ایک بڑی اہم بات ہے جو اس موقع پر حضورؐ نے ارشاد فرمائی۔ اسلام کی صحیح روح کو سمجھنے کے لیے اسے ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ضروری ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ دو آدمی اگر اپنے جھگڑے میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے آؤ۔ لیکن اگر ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے ، یا برادری، یا نسل و رنگ، یا علاقے کے نام پر لوگوں کو پکارتا ہے تو یہ جاہلیت کی پکار ہے ، اور اس پکار پر لبیک کہہ کر آنے والے اگر یہ نہیں دیکھتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون، اور حق و انصاف کی بنا پر مظلوم کی حمایت کرنے کے بجائے اپنے اپنے گروہ کے آدمی کی حمایت میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جاتے ہیں تو یہ جاہلیت کا فعل ہے جس سے دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے گندی اور گھناؤنی چیز قرار دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہارا اس جاہلیت کی پکار سے کیا واسطہ؟ تم اسلام کی بنیاد پر ایک ملت بنے تھے ، اب یہ انصار اور مہاجر کے نام پر تمہیں کیسے پکارا جا رہا ہے ، اور اس پکار پر تم کہاں دوڑے جا رہے ہو؟ علامہ سُہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ فقہائے اسلام نے کسی جھگڑے یا اختلاف میں جاہلیت کی پکار بلند کرنے کو ایک فوج داری جرم قرار دیا ہے۔ ایک گروہ اس کی سزا پچاس ضرب تازیانہ قرار دیتا ہے۔ دوسرا گروہ دس ضرب تجویز کرتا ہے ، اور تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کی سزا حالات کی مناسبت سے دی جانی چاہیے۔ بعض حالات میں صرف زجر و توبیخ کافی ہے ، بعض دوسرے حالات میں ایسی پکار بلند کرنے والے کو قید کرنا چاہیے ، اور اگر یہ زیادہ شر انگیز ہو تو اس کے مرتکب کو سزائے تازیانہ دینی چاہیے۔ واپس |
|
۳؎ مدینہ کے منافقین ان تمام لوگوں کو جز اسلام قبول کر کر کے مدینہ میں آ رہے تھے ، ’’جلابیب‘‘ کہا کرتے تھے۔ لغوی معنی تو اس لفظ کے گلیم پوش یا موٹے جھوٹے کپڑے پہننے والے کے ہیں ، مگر اصل مفہوم جس میں وہ لوگ غریب مہاجرین کی تذلیل کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے تھے ، کنگلے کے لفظ سے زیادہ صحیح طور پر ادا ہوتا ہے۔ واپس |
|
۴؎ فقہاء نے اس سے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ ایک شخص کی بری بات دوسرے شخص تک پہنچانا اگر کسی دینی، اخلاقی یا ملی مصلحت کے لیے ہو تو یہ چغلی کی تعریف میں نہیں آتا۔ شریعت میں جس چغل خوری کو حرام کیا گیا ہے وہ فساد کی غرض سے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیے چغلی کھانا ہے۔ واپس |
|
۵؎ مختلف روایات انصاری بزرگوں کے نام آئے ہیں جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے عرض کیا تھا کہ آپ ان میں سے کسی شخص سے یہ خدمت لے لیں اگر مجھ سے اس لیے یہ کام لینا مناسب خیال نہیں فرماتے کہ میں مہاجر ہوں ، میرے ہاتھوں اس کے مارے جانے سے فتنے بھڑک اٹھنے کا امکان ہے واپس |
|
۶؎ اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرز عمل ابن بی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحق قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بن کر کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل اُلٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھے جس کی بنا پر حضورؐ نے عبداللہ بنا بی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپ اسے سزا دینے پر قادر تھے ، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے ، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ واپس |
www.tafheemulquran.net |
جلد پنجم | پچھلا رکوع
|
رکوعاتھا2 |
|
سورة المنٰفقون مدنیة
|
اٰیاتُھَا 11 |
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے اے نبیؐ ، جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں،”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسُول ہیں“۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسُول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جُھوٹے ہیں۔ 1 انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے 2 اور اِس طرح یہ اللہ کے راستے سےخود رُکتے اور دنیا کو روکتے ہیں۔ 3 کیسی بُری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔ 4 |
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ١ۘ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَۚ۰۰۱اِتَّخَذُوْۤا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۲ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ۰۰۳وَ اِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ١ؕ وَ اِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ١ؕ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ١ؕ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ١ؕ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١ٞ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۰۰۴وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَ رَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ۰۰۵سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۰۰۶هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا١ؕ وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ۰۰۷يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ١ؕ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَؒ۰۰۸ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع | پچھلا رکوع |
جلد پنجم | اگلا رکوع |
رکوعاتھا2 |
|
سورة المنٰفقون مدنیة
|
اٰیاتُھَا
11 |
17 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ 18 جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ جو رزق ہم نےتمہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ”اے میرے رب، کیوں نہ تُو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اَور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔“ حالانکہ جب کسی کی مُہلتِ عمل پُوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مُہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔ ؏۲ |
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۰۰۹وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِيْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ١ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۰۰۱۰وَ لَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَؒ۰۰۱۱ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع |