اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المنٰفقون حاشیہ نمبر۴

اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے۔ اور کفر کر نے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے  ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار رکنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کر لی گئی کہ وہ ایک سچے اور بے لاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کر لیا ہے۔

یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کر لی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا۔