1-لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی |
|
ایک گروہ ، جس نے اِس دور میں نئی نبوّت کا فتنۂ عظیم کھڑا کیا ہے ، لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپؐ کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے ، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپؐ کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہو سکے گا۔
لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی پس جہاں تک سیاق وسباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبییّن کے معنی سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے ہی کے لیے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف سیاق ہی کا تقاضا نہیں ہے ، لغت بھی اِسی معنی کی مقتضی ہے۔ عرنی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے ، بند کرنے ، آخر تک پہنچ جانے ، اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں۔ اس بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبییّن کے معنی آخر النبییّن کے لیے ہیں۔ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ مُہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلنے نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔اوپر
ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں :
صحابۂ کرام کا اِجماع قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثیت صحابۂ کرام کے اجماع کی ہے۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی ، اُن سب کے خلاف صحابۂ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی۔
تمام علمائے اُمّت کا اجماع اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جس چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دور صحابہ کے بعد کے علمائے اُمت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے کے ، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا ، اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے ، یا اس کو مانے ، وہ کافر خارج از ملّت اسلام ہے۔ اس سلسلہ کے بھی چند شواہد ملاحظہ ہوں : ii)اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ iii) نئی نبوّت اب اُمّت کے لیے رَحمت نہیں بلکہ لعنت ہے نئی نبوت کی طرف بلانے والے حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود ‘‘ کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اور مسیح نبی تھے ، اس لیے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی ، بلکہ ختمِ نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق۔ احادیث درباب نزولِ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السّلام (۱)عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و الذی نفسی بیدہ لَیَوْشِکَنَّ ان ینزل فِیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر ویَضَعَ الحربَ و یُفیضَ المال حتیٰ لا یقبلِہ احد حتٰی تکون السجدہ الواحدۃ خیراً من الدّنیا و ما فیھا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔مسلم ، باب بیان نزول عیسیٰ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ۔ؑ مسند احمد، مرویات ابوہریرہؓ) --------------------------------------------------------------------------- [2]یہاں ہم نے لغت کی صرف تین کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن بات انہی تین کتابوں پر منحصر نہیں ہے۔ عربی زبان کی کوئی معتبر لغت اٹھا کر دیکھ لی جائے ، اس میں لفظ ’’خاتم‘‘ کی یہی تشریح ملے گی۔ لیکن منکرینِ ختمِ نبوت خدا کے دین میں نقب لگانے کے لیے لغت کو چھوڑ کر اس بات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی شخص کو خاتم الشعراء ، یا خاتم الفقہاء یا خاتم المفسّرین کہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جس شخص کو یہ لقب دیا گیا ہے اس کے بعد کوئی شاعر یا فقیہ یا مفسّر پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس فن کے کمالات اُس شخص پر ختم ہو گئے۔ حالانکہ مبالغے کے طور پر اس طرح کے القا ب کا استعمال یہ معنی ہر گز نہیں رکھتا کہ لغت کے اعتبار سے خاتم کے اصل معنی ہی کامل یا افضل کے ہو جائیں اور آخری کے معنی میں یہ لفظ استعمال کرنا سرے سے غلط قرار پائے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو زبان کے قواعد سے ناواقف ہو۔ کسی ز بان میں بھی یہ قاعدہ نہیں ہے کہ اگر کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کبھی کبھی مجازاً کسی دوسرے معنی میں بولا جاتا ہو تو وہی معنی اس کے اصل معنی بن جائیں اور لغت کی رُو سے جو اس کے حقیقی معنی ہیں اُن میں اس کا استعمال ممنوع ہو جائے۔ آپ کسی عرب کے سامنے جب کہیں گے کہ جَاء خاتَم القوم، تو وہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لے گا کہ قبیلے کا فاضل و کامل آدمی آگیا ، بلکہ اس کا مطلب وہ یہی لے گا کہ پورا قبیلہ آگیا ہے حتیٰ کہ آخری آدمی جو رہ گیا تھا وہ بھی آگیا۔ [5] صلیب کو توڑ ڈالنے اور خنزیر کو ہلاک کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہو جائے گی۔ دینِ عیسوی کی پوری عمارت اس عقیدے پر قائم ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے (یعنی حضرت عیسیٰ) کو صلیب پر ’’ لعنت ‘‘ کی موت دی جس سے وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اور انبیاء کی امتوں کے درمیان عیسائیوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف عقیدے کو لے کر خدا کی پوری شریعت رد کر دی حتیٰ کہ خنزیر پر تک کو حلال کر لیا جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں حرام رہا ہے۔ پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر خود اعلان کر دیں گے کہ نہ میں خدا کا بیٹا ہوں، نہ میں نے صلیب پر جان دی، نہ میں کسی گناہ کا کفارہ بنا تو عیسائی عقیدے کے لیے سرے سے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح جب وہ بتائیں گے کہ میں نے تو نہ اپنے پیرووں کے لیے سُور حلال کیا تھا اور نہ ان کو شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھیرایا تھا، تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔[واپس] [9]یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا اپنا قول ہے [واپس] [10] اَفیق، جسے آج کل رفیق کہتے ہیں ،شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجودہ ریاست شام کا آخری شہر ہے۔ اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلہ پر طَبَریہ نامی جھیل ہے جس میں سے دریائے اُردُن نکلتا ہے ، اور اس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی راستے کو عَقَبہْ اَفیق کی گھاٹی کہتے ہیں۔ [واپس] [13] اگرچہ دو روایتوں (نمبر ۵ و ۲۱) میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد پہلی نماز خود پڑھائیں گے، لیکن بیشتر اور قوی تر روایات (نمبر ۳،۷،۹،۱۵،۱۶) یہی کہتی ہیں کہ وہ نماز میں امامت کرانے سے انکار کریں گے اور جو اس وقت مسلمانوں کا امام ہوگا اسی کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی بات کو محدثین اور مفسرین نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔[واپس] |