اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر٦۸

مراد ہیں حضرت زید ، جیسا کہ آگے بصرا حت بیان فرما دیا گیا ہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا احسان کیا؟اس کو سمجھنے کے لیے ضروری کہ مختصراً یہاں اُن ک قصّہ بیان کر دیا جائے۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حا رِ ثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور اُن کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے اُن میں حضرت زید بھی تھے۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے۔ انہوں نے مکّہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت مین نذر کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت خدیجہ ؓ کا جب نِکاح ہوا تو حضورؐ نے ا ن کے ہاں زید کو دیکھا اور ا ن کی عادات و اطوار آپؐ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپؐ نے انہیں حضرت خدیجہؓ سے مانگ لیا۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اُس خیرالخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی۔ کچھ مدت بعد ا ن کی باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچّہ مکّہ میں ہے۔وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں ، آپ ہمارا بچّہ ہمیں دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فِدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں۔ انہوں نے کہا یہ تو آپؐ نے انصاف وے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے۔ آپ بچے کو بُلا کر پوچھ لیجیے۔ حضورؐ نے زید ؓ کو بُلایا اور ان سے کہا اِن دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ،یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا۔ آپؐ نے فرمایا ، اچھا ، تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو۔ انہوں نے جواب دیا میں آپؐ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا، زید ، کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اِس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں اُن کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دُنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سُن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے۔ حضورؐ نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمعِ عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ، آج سے زید میرا بیٹا ہے ، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمدؐ کہنے لگے۔ یہ سب واقعات نبوّت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوّت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپؐ سے نبوّت کا دعویٰ سُنتے ہی اسے تسلیم کر لیا۔ ایک حضرت خدیجہؓ ، دوسرے حضرت زیدؓ، تیسرے حضرت علیؓ، اور چوتھے حضرت ابو بکرؓ۔ اُس وقت حضرت زیدؓ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضورؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے۔ ہجرت کے بعد ۴ ھج میں نبی صلی اللہ ولیہ و سلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ سے ان کا نکاح کر دیا ، اپنی طرف سے اُن کا مہر ادا کیا ، اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔
یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ اِن الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ ’’ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا۔‘‘