اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۷۹

 اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دِلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کُڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمہارے اوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعہ سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی ، کفر  و جاہلیّت کی تاریکیوں سے نِکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے۔ اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصّہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسول پر نِکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہّ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محرم ہو جاؤ۔
صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت ، مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں ، یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اپنی عنایات سے اِنہیں سرفراز کر ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکر الجمیل فی عباداللہ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے بندوں کے درمیان ناموری عطا فرماتا ہے اور تمہیں اِس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمہاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمہاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔