اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم |
سورة الکافرون |
رکوع | ||||||||||||||||||||||||||||||
نام : پہلی ہی آیت قُلْ یٰٓااَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ کے لفظ الکافرون کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول : حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن بصری اور عِکْرِمَہ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکّی ہے، حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں مدّنی ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور قَتَادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکّی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ مکّی سورۃ ہے، اور اس کا مضمون خود اس کے مکّی ہونے پر دلالت کر رہاہے۔ تاریخی پَسْ منظر : مکّہ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا ، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضورؐ کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا ۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تا کہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رُونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں: موضوع اور مضمون: اِس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں ، بلکہ اِس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفّار کے دین اور اُن کی پوجا پاٹ اور اُن کے معبودوں سے قطعی براءت ، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کر دیا جائے اور اُنہیں بتا دیا جائے کہ دینِ کفر اور دینِ اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، اُن کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتداءً قریش کے کفار کو مُخاطَب کر کے اُن کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی، لیکن یہ اُنہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دینِ کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے اُن کو اس سے قول اور عمل میں براءت کا اظہار چاہیے اور بلا رو رعایت کہہ دینا چاہیے کہ دین کے معاملہ میں وہ کافروں سے کسی قسم کی مداہنت یا مصالحت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے یہ سورۃ اُس وقت بھی پڑھی جاتی رہی جب وہ لوگ مر کھپ گئے تھے جن کی باتوں کے جواب میں اِسے نازل فرمایا گیا تھا ، اور وہ لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد اسے پڑھتے رہے جو اِس کے نزول کے زمانے میں کافر و مشرک تھے، اور اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعد آج بھی مسلمان اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ کفر اور کافری سے بیزاری و لاتعلقی ایمان کا دائمی تقاضا ہے۔ |
|
۱؎ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابلِ قبول کیا معنی قابلِ غور بھی سمجھتے تھے، اور آپؐ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی منظوری آجائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابلِ قبول نہیں ہے ، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کے بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں ، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتادوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار جاری رہتا ہے، لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔ واپس |
www.tafheemulquran.net |
جلد ششم | اگلا رکوع
| پچھلا رکوع
|
رکوعاتھا1 |
|
سورة الکافرون مکیة
|
اٰیاتُھَا 6 |
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے کہہ دو کہ اے کافرو، 1 میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، 2 اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ 3 اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ 4 تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ 5 ؏۱ |
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ۰۰۱لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ۰۰۲وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُۚ۰۰۳وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْۙ۰۰۴وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُؕ۰۰۵لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِؒ۰۰۶ |
www.tafheemulquran.net | اگلا رکوع | پچھلا رکوع |