اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الکافرون حاشیہ نمبر۵

یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میرے معبود کے پرستار نہیں۔ میں  تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کر سکتا  اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ  کبھی ایک نہیں ہو سکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے ، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں اُن سے ہمیشہ کے لیے براءت، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود اُن کو اِس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کر دینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی اُن سے کوئی مصالحت  کرے گا۔ یہی اعلانِ براءت اور اظہارِ بیزاری اِس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکّی سورتوں میں پے در پے کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ یونس میں فرمایا ”اگر یہ تجھے جھُٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، جو کچھ  میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں“(آیت ۱۰۴)۔ سورۂ شُعَراء میں فرمایا ”اے نبی، اب اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں مانتے تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے میں بَری الذمّہ ہوں“(آیت۲۱۶)۔ سورۂ سبا میں فرمایا ” اِن سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اُس  کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی۔ کہو ، ہمارا ربّ(ایک وقت) ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے  درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا“(آیات۲۶-۲۵)۔سورہ ٔ زمر میں فرمایا ”اِن سے کہو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رُسوا کُن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں“(آیات ۴۰-۳۹) ۔ پھر یہی سبق مدینۂ طیّبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ  ” تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے اُن معبودوں سے، جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بَیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ“ (الممتحنہ۔ آیت۴) ۔ قرآن مجید کی اِن پے در پے توضیحات سے اِس شبہ کی گنجائش  تک نہیں رہتی کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کا مطلب یہ  نہیں ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو ۔ بلکہ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی سُورۂ زُمر میں فرمائی گئی ہےکہ ”اے نبی، اِن سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا، تم اُسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کر نا چاہو کرتے رہو“ (آیت ۱۴)۔

اِس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں،  لیکن کفر بحیثیتِ مجموعی ایک ہی ملّت ہے ، اس لیے یہودی عیسائی کا ، اور عیسائی یہودی کا، اور اسی طرح ایک مذہب کا  کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہو سکتا ہے اگر اُن کے درمیان نسب، یا نکاح یا کسی سبب کی بنا پر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچے کامقتضی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام اَوزاعی اور  امام احمد اِس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پا سکتے۔ ان کا استدلال یہ  اُس حدیث سے ہے جو حضرت عبد اللہ ؓ بن عَمرْو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملّتین شتّٰی۔ ”دو مختلف ملّتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے“( مُسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قُطْنِی)۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابرؓ سے اور ابن حِبّان نے حضرت عبد اللہؓ بن عمر سے اور بَزّار  نے حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ اس  مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور امام امام شمس الاَئئمہ، سَرَ خُسِی لکھتے ہیں: ”کفار آپس میں اُن سب اسباب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے ہوتےہیں ، اور اُن کے درمیان بعض ایسی صورتوں میں بھی توارُث ہو سکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں ، ایک دینِ حق ، دوسرے دینِ باطل ، چنانچہ فرمایا لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں ، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے، اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفّار ہیں۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ھِذَا نِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ (یہ دو مدّ مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے ۔ الحج، آیت ۱۹) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملّتیں  ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ہی ملّت ہیں، کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔  اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملّت ہیں ۔۔۔۔۔ حدیث لا یتوارث اھل ملّتین اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے  جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، کیونکہ مِلّتَین (دوملّتوں) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے کر دی ہے کہ    لا یرث المسلم الکافر و لا الکافر المسلم۔  مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے “ (المبسوط، ج۳، صفحات ۳۲-۳۰)۔  امام سَرخَسِی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری، مسلم، نَسائی ، احمد  ،ترمِذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اُسامہ ؓ بن زید سے روایت کیا ہے۔