اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر ۱۱۲

اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ  سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo  (مریم ۔ آیت ۴۷)”آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان  ہے“۔ اور  لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴)” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے  یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o (الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ”اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ  سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی  سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا۔