سورة الحاقةحاشیہ نمبر۱۲ |
|
سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اُس کا حساب بے باق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدانِ حشر میں حاضری تک اُس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہوگا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہوگا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہوجاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بدبخت آدمی کی حیثیت سے ۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال،آیت۵۰۔النحل، آیات۲۸،۳۲،مع حاشیہ ۲۶۔بنی اسرائیل، آیت۹۷۔ جلد سوم ، طٰہٰ، آیات۱۰۲،۱۰۳،۱۲۴تا۱۲۶،مع حواشی ۸۰،۷۹،۱۰۷ لانبیاء، آیت ۱۰۳، مع حاشیہ ۹۸۔الفرقان،آیت۲۴، مع حاشیہ۳۸۔ النمل، آیت۸۹،مع حاشیہ۱۰۹م جلد چہارم، سبا،آیت ۵۱،مع حاشیہ۷۲۔ یٰس، آیات ۲۶،۲۷،مع حواشی ۲۲۔۲۳۔المومن، آیات۴۵،۴۶،مع حاشیہ ۶۳۔جلد پنجم، محمد ؐ ، آیت۲۷ مع حاشیہ ۳۷۔ق،آیات۱۹تا۲۳۔مع حواشی ۲۵،۲۳،۲۲)۔ |