یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین کر نا مشکل ہے۔ ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ یہی سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہوگی۔ مگر یہ بات بہر حال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھا ئے ہوئے ہونگے۔ آیات میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہوگا ، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اُسے اٹھا ئے۔اس لیے کھوج کر ید کر کے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے خطرے میں مبتلا کر نا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی حکومت و فرمانروائی اور اس کے معاملات کا تصور دلانے کے لیے لوگوں کے سامنے وہی نقشہ پیش کیا گیا ہے جو دنیا میں بادشاہی کا نقشہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو انسانی زبانوں میں سلطنت اور اس کے مظاہر دلوازم کے لیے مستعمل ہیں، کیونکہ انسانی ذہن اسی نقشے اور انہی اصطلاحات کی مدد سے کسی حد تک کائنات کی سلطانی کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اصل حقیقت کو انسانی فہم سے قریب تر کرنے کے لیے ہے۔ اس کو بالکل لفظی معنوں میں لے لینا دُرست نہیں ہے۔ |