شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر (سینہ تنگ ہو جانے اور دل بھچ جانے ) کی کیفیت جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص، خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی، ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے ، کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو، مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہو جائے۔ |