یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہو جائے۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہو جا نا یا سینہ کھل جانا در اصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی دل میں اس کے بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے ، اور اسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیز حق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہو جائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسولؐ کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا و رغبت مانتا ہے۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی نا جائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں ، الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہر حال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔ |