یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ |