یعنی دوست ، لیڈر ،پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں ، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے ۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے ، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی ک اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے ۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی وہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا ۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے ، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے ۔ |