اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے ۔اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے ، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی ۔اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے ۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آگیا ۔ تیسری وہ جس کے اندر حس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔ |