یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل ، تینوں صورتوں میں ہو۔وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے ۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے ۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے ، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے ، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے ، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے ۔ |