یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سرِ نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذ ہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی غفل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے کہ نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملًا دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے۔ ا س کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے ۔ جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اُسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لا حاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۲۸۔ الانعام، حواشی ۶ – ۱۳۹ – ۱۴۰۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۶)۔ |