یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظامِ عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حدو حساب چیزوں میں ، اَن گنت تاروں اور سیّاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظا م کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالتت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہو تا تو اصحابِ اقتدار میں اختلاف رونما ہو نا یقینًا ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ یہی مضمون سورۂ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا، (آیت ۲۲) ” اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا“۔ اور یہی استدلال سُورۂ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ لَوْ کَانَ مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْ ا اِلٰی ذِی الْعَرْ شِ سَبِیْلًا o (آیت ۴۲) ”اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ،جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو ضرور وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے“۔ ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جدل دوم ، بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، الانبیاء ، حاشیہ نمبر ۲۲)۔ |