اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۸۲

اصل الفاظ ہیں اَنّٰی تُسْخَرُوْنَ، جن کا لفظی ترجمہ ہے”کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو“۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہےکہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اُس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہاہے۔ پس آیت میں جو سوا ل کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ  جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحبِ اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے  والا نہیں ہے  اُس سے غدّاری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ اُن کی پناہ پر کر رہے ہو جو اُس سے تم کو نہیں بچا سکتے؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال  دیا ہے کہ جو  ہر چیز  کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال  کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے  کیسے  مجاز ہو گئے؟ سوا ل کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے۔ اس طرح گویا  سوال کے انہی الفاظ میں یہ مضمون بھی  ادا ہو گیا کہ بیوقوفو! جو شخص تمہیں اصل حقیقت (وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر ، اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں ، حتٰی کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف ، سراسر جھوٹی  اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے۔ ا ُن کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ اصل جادوگر تو وہ ہیں۔