”علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرف ِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئِ ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشاندہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کُھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے ، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نِرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مرکر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ |