اشارہ ہے اُس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے ۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں اہلِ مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا ہجرت کے کئی سال بعد جبکہ ثُمامہ بن اُثال نے یَمامہ سے مکّے کی طرف غلّے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور ؐ نے دعا کہ کہ اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف ، ”خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر“۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آگئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، ۴۲ تا ۴۴۔ الاعراف ۹۴ تا ۹۹۔ یُونس، ۱۱ – ۱۲ – ۲۱۔ النحل ، ۱۱۲ – ۱۱۳۔ الدخان، ۱۰ تا ۱۶ مع حواشی۔ |