یہ جملۂ معترضہ ہے جو اُس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ”شرمگاہوں کی حفاظت“ کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے اور آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوتِ شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خوا ہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو ، بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کےل یے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بندر ہتے ہین، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملۂ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہشِ نفس پوری کرنا کوئی قابلِ ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔ |