یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں:
(۱) ذکر بمعنی بیانِ فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالَم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تا کہ وہ اپنے اِس بھُولے ہوئے سبق کو یاد کریں، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔
(۲) ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رُو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ انہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔ (۳) ذکر بمعنیٰ شرف و اعزاز۔ اِس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں ج سے یہ قبول کریں تو انہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہوگی۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اَور چیز سے نہیں، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اُٹھان کے ایک زرین موقع سے روگردانی ہے۔