یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے ، اچانک ان کے درمیان آکھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے۔ جو شخص یہ دعوت پیش کر رہا ہے وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے ۔ ا س کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں ۔ بچپن سےجوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے ، اس کی راستبازی سے، اس کی امانت سے ، اس کی بے داغ سیرت سےیہ خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے۔ ا س کےبدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اس کی پوری جوانی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے، حق پسند ہے۔ امن پسند ہے۔ جھگڑوں سے کنارہ کش ہے۔ معاملے میں کھرا ہے ۔ قول و قرار کا پکا ہے۔ ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اُس نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ ہر مصیبت زدہ، بے کس ، حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوّت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد سے آ ج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے ۔ کوئی پلٹی اُس نے نہیں کھائی ہے۔ کوئی ردو بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعووں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کےقول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ا س کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور ۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے باٹ الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ”صاحب دودھ کاجلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے ، بڑے بڑے فریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اوّل اوّل اعتبار جما لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا، یہ صاحب بھی یا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نِکل آئے، ا س لیے ان کومانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے“۔ (اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۱۔ یونس ، حاشیہ نمبر ۲۱، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔ |