“پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سال سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ، دلائل سے بات سمجھا رہا ہے ، تاریخ سے نظیریں پیش کر رہا ہے، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملًا نگاہوں کے سامنے آرہے ہیں ، اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اُس باطل میں مگن ہیں جو اُن کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اِس حد تک بھی نہیں کہ وہ اُس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ، بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعیِ حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن ، ملامت، ظلم، جھوٹ، غرض کوئی بُری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کو وحدت ، اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ”چھوڑ و انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں“، خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ”اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑ انہیں“۔ اس”چھوڑو“ کو بالکل لفظی معنوں میں لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ”اب تبلیغ ہی نہ کرو“، کلام کے تیوروں سے ناآشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کہی جایا کرتی ہے۔ پھر”ایک وقتِ خاص تک“ کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا ، ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی۔ |