پچھلے دو رکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کہہ کہ تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا مو جود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کی یہی ہدایت کی گئی تھی ، اور سب کے سب اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے ۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک اُمّت ، ایک جماعت، ا یک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرزِ بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے گا۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جحمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دے جارہی ہے ۔ مگر اس طرزِ کلام کی لطافت اس دَور کے بعض کُند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی اور وہ اس سے نہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ؐ کے بعد بھی سلسلہ ٔنبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ تعجب ہے ، جو لوگ زبان و ادب کےذوقِ لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ |