دوسرا ترجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”آزمائش تو ہمیں کرنی ہو تھی“ یا”آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے“۔ تینوں صورتوں میں مدّعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا ، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہے ہے۔ قومِ نوح کے ساتھ جو کچھ ہُوا اسی قانون کے مطابق ہُوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوانِ یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازمًا سابقہ پیش آنا ہے۔ |