اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۲۹

بعض لوگوں نے  تنور  سے مراد زمین لی ہے، بعض نے زمین کا بلند ترین حصّہ مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ  فَار َ التَّنُّور  کا مطلب طلوعِ فجر ہے، اور بعض کی رائے میں یہ  حمی الوطیس  کی طرح ایک استعارہ ہے”ہنگامہ گرم ہو جانے“ کے معنی میں۔ لیکن کوئِ معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے  جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز  اس کے نیچے سے پانی اُبلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے کہ جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی اُبل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رُخ سے لاتا ہے جدھر  اس کا وھم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔