اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آغازِ آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اِس کُرے کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھا۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصّوں میں ٹھیر گیا جس سے سمندر اور بُحَیرے وجود میں آئے اور آبِ زیرِ زمین(Sub-soil Water ) پیدا ہوا۔ اب یہ اسی پانی کا اُلٹ پھیر ہے جو گرمی، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے، اسی کو بارشیں ، برف پوش پہاڑ، دریا، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصّوں میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی ، جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور اکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا؟ اور کون ہے جو اب انہی دونوں گیسوں کو اُس خاص تناسب کے ساتھ نہیں ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے، حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہوجانے سے روکے رکھتا ہے؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ اور کیا پانی اور ہوا گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟ |