اِن آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں:
اوّل یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویّے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔
دوم یہ کہ فلاح محض اقرارِ ایمان ، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔ جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھراس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔
سوم یہ کہ فلاح دنیوی اور مادّی خوشحالی اور محدود قتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالتِ خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائیدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر ہوتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کُلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوشحالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے اِن اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلۂ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغازِ میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائیٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گردوپیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے برحق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں ۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آرہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔