ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کر لی، آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اُس طریقِ زندگی کی پیروی پر راضی ہوگئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔
فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خُسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کوشش بارآور ہوئی، اس کی حالت اچھی ہو گئی۔
قَدْ اَفْلَحَ ”یقینًا فلاح پائی“۔ آغازِ کلام اِن الفاظ سے کرنے کی معنویت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اُس وقت ایک طرف دعوتِ اسلامی کے مخالف سردارانِ مکّہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بدحال کردیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ”یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے“ تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رَس نہیں ہے، تم اپنے جس عاری و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و بامراد ہیں۔ اس دعوتِ حق کو مان کو انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بُرے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدّعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔