یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے۔ کافر اپنے ربّ سے بے نیاز ، آخرت سے بے پروا ، اور قوانینِ الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسُوئی کے ساتھ مادّی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھودے، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیر وی کرتا ہے تو اگر چہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر ہی رہتی ہے ، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کےہاتھ سے جاتی رہے ، آخرت میں بہر حال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے ۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدُود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے ، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسُوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اُس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخر ت بھی۔ |