مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی میں مجدد کے طور پر ابھر کے سامنے آئے انھوں نے اسلامی فکر کی از سرِ نو تشکیل کی۔ مولانا نے اسلامی فکر پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کئے۔
۳ رجب بمطابق 25 ستمبر 1903 ء میں اورنگ آباد حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے نبی ﷺ کی شخصیت ان کے لئے آئیڈیل کا درجہ رکھتی تھی۔
15 برس کی عمر سے با قاعدہ صحافت کا آغاز کیا۔ اپنی عملی زندگی کے آغاز سے قبل ہی بارہ سال کی عمر سے انھوں نے سیرت النبی ﷺ پر کتاب لکھنا شروع کردی تھی۔ الجہاد فی الاسلام نامی کتاب وہ معرکۃ الاراء تصنیف ہے جس میں انھوں نے اسلام میں جہاد کا تصور بڑے عام فہم انداز میں پیش کیا۔ یہ کتاب جہاد کے خلاف مغربی پروپیگنڈے ) (propaganda کا بھر پور جواب تھی۔
1928ء سے 1932ء کا دور ایک محقق اور مفکر کی دریافت کا دور ہے۔ اور اس میں وہ تصنیف کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ انھوں نے دل ہی نہیں ذہن بھی بدل دیئے۔
1932 ء سے 1941ء نظریات میں پختگی اور عمل کی جانب پیش قدمی کا دور ہے۔ ترجمان القرآن جس کے وہ ایڈیٹر رہے محض ایک رسالہ نہیں بلکہ تحریک اور دعوت کا نکتہ آغاز تھا۔ مولانا، علامہ اقبال ؒ سے بہت متاثر تھے۔ اور ان سے دو تین مرتبہ ملاقات بھی کی ۔ اس دور میں وہ مختلف مقامات پر گئے اور اسلام کی حقانیت پر تقاریر کیں۔
1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، یہ تحریک ان کے لئے مقصدِزندگی تھا، اسی کے لئے ان کا جینا مرنا تھا، اور ان کا یہ کہنا تھاکہ کوئی اس راہ پر چلنے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو مجھے تو اس راہ پر چلنا ہے۔ پاکستان ان کی نظر میں اسلام کا وطن ہے، اور ان کی خواہش تھی کہ اللہ کی ریاست کوحقیقی شکل میں دیکھ سکیں۔ اسلامی دستور کی تشکیل کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بھر پور استعمال کیا۔ اسلام سے محبت نے انھیں پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی ہونے کا اعزاز بخشا۔ ان کی ساری زندگی تحریک کے لئے وقف تھی۔
قادیانی مسئلہ نامی کتاب کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے “جرم ” میں انھیں فوجی عدالت نے سزائے موت دیئے جانے کا فیصلہ کیا۔
25 مئی 1979 ء میں علاج کے غرض سے برطانیہ تشریف لے گئے اور 22 ستمبر 1979ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی قائم کردہ تحریک اور ان کی کتابیں آج بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہی
|