اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الناس حاشیہ نمبر۳

بعض اہل علم کے نزدیک اِن الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دوقسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، ایک جن، دوسرے انسان۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآن میں جب رِجَا لٌ ( مردوں ) کا لفظ جِنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ جن آیت ۶ میں ہم دیکھتے ہین، اور جب نَفَر کا استعمال جِنوں کے گروہ پر ہو سکتا ہے، جیسا کہ سورہ احقاف آیت۲۹ میں ہوا ہے، تو مجازًا ناس کے لفظ میں  بھی انسان اور جِن دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جِن کی ضد ہیں۔ جِنّ کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق ے ہیں اور جِن کوجِن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے۔ اس کے بر عکس ناس او ر اِنس کے الفاظ انسان کے لییے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مَرْئی اور محسوس ہے۔ سورہ قَصص ، آیت۲۹ میں ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا۔ یہاں اَنَسَ کے معنی رَأَی ہیں، یعنی حضرت موسیٰ نے ”کوہ طور کے کنارے آگ دیکھی“۔سورہ نساء، آیت ۶ میں ہےفَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُم رُشْدًا،”اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے  ہیں“۔یہاں اٰنَسْتُم کے معنی اَحْسَنْتُمْ یَا رَاَیْتُمْ ہیں۔ پس ناس کا اطلاق لغتِ عرب کی رو سے جِنوں پر نہیں ہو سکتا، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ” اُس سووسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلو ں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا خٔد انسانوں میں سے “۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطینِ جِن بھی  کرتے ہیں اور شیاطین اِنس بھی، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی۔قرآن میں فرمایا:
وَکَذٰالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّاشَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ (الانعام۔۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جِنوں اور شیطان انسانوں کو دشمن بنا دیا ہے  جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے ہیں۔

اور حدیث میں امام احمد، نسائی اور  ابن حِبّان حضرت ابو ذر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ابو ذر، تم نے  نماز پڑھی؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی  اور پھر آکر بیٹھ گیا۔ حضورؐ نے فرمایا یا اباذرّ، تَعَوَّذ با للہ من شِرّ شیاطین ِ الانس والجن،”اے ابو ذر، شیاطینِ اِنس اور شیاطین ِ جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو“۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟فرمایا ہاں۔