اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفلق حاشیہ نمبر۶

اصل الفاظ ہیں نَفَّا ثَاتِ فِی الْعُقَدِ۔ عُقَد جمع ہے عُقْدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں، جیسی مثلاً تا گے یا رسی میں ڈالی جاتی ہے ۔ نَفْث کے معنی پھونکنے کے ہیں۔ نَفَّا ثَات جمع ہے نَفَّا ثَہ کی جو کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں گے ، اور اگر مؤنث کا صیغہ سمجھا جائے تو مرد بہت پھونکنے والی عورتیں بھی ہو سکتی ہیں، اور نفوس یا جماعتیں بھی، کیونکہ عربی میں نفس اور جماعت دونوں مؤنث ہیں۔ گرہ میں پھونکنے کا لفظ اکثر، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے، کیونکہ جادوگر عموماً کسی ڈور یا تاگے میں گرہ  دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جادوگر یا جادوگرنیوں کے شر سے۔ اِ س مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آکر حضورؐ کو معوِّذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اور معوِّذتین میں یہی ایک فقرہ ہے جو براہِ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے۔ ابو مسلم اصفہانی اور زمخْشَری نے نَفَّاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں کی مکاری، اور مردوں کے عزائم اور آراء اور خیالات پر اُن کی اثر اندازی ہے ار اس کو جادو گری سے تشبیہ دی گئی ہے ، کیونکہ عورتوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آدمی کا وہ حال ہو جاتا ہے گویا اُس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ پرلطف ہے ، لیکن اُس تفسیر کے خلاف  ہے جو سلف سے مسلم چلی آتی ہے ۔ اور اُن حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں رکھتی جن میں معوِّ ذتین نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔

          جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں چونکہ دوسرے شخص پر بُرا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواحِ خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں اسے کفر کہا گیا ہے : وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْر،”سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے“(البقرہ۔۱۰۲)۔ لیکن اگر اُس میں کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعلِ شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرا م ہے  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سات ایسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کردینے والے ہیں۔ بِخاری ومسلم  میں حضرت ابو ہریرہؓ کی ر وایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا سات غارت گر چیزوں سے پر ہیز کرو۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کوئی شریک کرنا، جادو، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کا بھاگ نکلنا، اور بھولی بھالی عَفیف مومن عورتوں پر زنا کی تُہمت لگانا۔