اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفلق حاشیہ نمبر۳

اصل میں لفظ رَبُّ الْفَلَق“ استعمال ہوا ہے۔فلق کے اصل معنی پھاڑ نے کے ہیں۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدہ صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فَلَقُ الصبح کا لفظ طلوعِ صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے، اور قرآن میں بھی  اللہ تعالیٰ کے لیے فَالِقُ الْا ِ صْباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ”وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے“(الانعام۔۹۶)۔ فَلَق کے دوسرے معنی خَلْق بھی لیے گئے ہیں، کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام  حیوانات یا تو رحم مادر سے  بر آمد ہوتے ہیں، یا تو انڈا توڑ کر نکلتے ہیں، یا کسی اور مانع ظہو چیز کر چیر کو باہر آتے ہیں تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں۔ دن  رات کا پردہ چاک ک کے نمودار ہوتا ہے۔ بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں۔ غرض  موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں  عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتٰی کہ زمین اور  سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا (الانبیاء۔۳۰)۔ پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہو گا میں تما م خلق کے رب کے  پناہ لیتا ہوں۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت”رب“اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ”رب “، یعنی مالک و پروردگار اور آقا دمربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ پھر رَبُّ الْفَلَقْ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہوتو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہونگے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے  عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد رَبِّ خَلْق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ  میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تا کہ وہ  اپنی مخلوق کے  شرسے مجھے بچائے۔