سورة الفلق حاشیہ نمبر۲ |
|
پناہ مانگنے کے فعل میں لازماً تین اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا۔ دوسرے پناہ مانگنے والا۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا، یا اس کی آڑ لینا، یا اُس سے لپٹ جانا یا اُص کے سایہ میں چلاجانا ہے۔ پناہ مانگنے والا بہر حال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ دوڑ رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کر سکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اُس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازماً کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین ِ طبعی کے مطابق عالمِ اسباب کے اندر کسی محسوس مادّی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثلاً دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا، یا گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا، یا کسی طاقت ور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا، دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات اور ہر طرح کی مادّی، اخلاقی یارو حانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطر ی ہستی کی پناہ اِس عقیدے کی بنا پر مانی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حِس و ادراک طریقے سے وہ اس شخص کی ضرور حفاظت کر سکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ پناہ کی یہ دوسری قسم کی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے ۔ بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی ٰ کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ(پناہ مانگنا) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں ، مثلاً جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع ووسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیآت کے مقابلہ میں ، جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھتا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا۔ مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے : وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْ ذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ، ”اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے“(الجن۔۶)۔ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ ۷ میں حضرت عبدا للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کر چکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ”ہم اس وادی کے رب کی (یعنی اس جن کی جو اس وادی کا حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے) پناہ مانگتے ہیں“۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ،”وہ اپنی بل بوتے پر اکڑ گیا“(الذاریات،۳۹)۔ لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کیا کرتے ہیں، خواہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا(جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے)تو انہوں نے کہا اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً، ”اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمٰن کی پناہ مانگی ہوں“( مریم ۔۱۸)۔حضرت نوح نے جب اللہ تعالی ٰ سے ایک بےجا دعا کی اور جواب اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فوراً عرض کیا رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ،”میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں “(ہود۔۴۷)۔ حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِا للہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ،”میں خدا کی پناہ مانگا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں“(البقرہ ۔۶۷)۔
|