اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاخلاص حاشیہ نمبر۵

”مشرکین نے ہر زمانہ میں  خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں ، اور اُن میں شادی بیا ہ اور توالُد و تَناسُل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اِس جاہلانہ تصوُّر سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالاتر نہیں سمجھا اور اُس کے لیے بھی اولاد تجویز کی۔ چنانچہ اہلِ عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انبیاء  علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اُن کے ہاں  بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہو گیا۔  ان مختلف توہُّمات  میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خَلْط مَلْط ہوتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اُس  ذات ِ پاک کی نَسبی اولاد ہے۔ اور بعض نے یہ دعویٰ کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اُسے اللہ نے اپنا مُتَبنّٰی بنایا ہے۔ اگرچہ اُن میں سے کسی کی یہ جرأت نہیں ہوئی  کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں ، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالُد و تَناسُل سے پاک نہیں ہے ، اور اُس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اُس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، تو پھر انسانی ذہن اِس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اُسے بھی کسی کی اولاد سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گئے تھے اُن میں  ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ  کس سے اُن نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اُس کے بعد وارث ہو گا؟
 اِن جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ  منطقی طور اِن کو فرض کر لینے سے  کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازِم آتا ہے:
اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو، اور اس کے افراد خدائی کے اوصاف، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں۔ یہ بات خدا کی صرف نَسبی اولاد فرض کر لینے ہی سے لازم نہیں آتی، بلکہ کسی کو مُتَبنّٰی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے ، کیونکہ کسی کا متَبنّٰی لا محالہ اُس کا ہم جنس ہی ہو ہو سکتا ہے ، اور جب معاذاللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اِس  سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے۔
دوم یہ کہ  اولاد کا کوئی تصور اِس کے بغیر نہیں کیا جا سکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادّہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کر نے سے لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ وہ ایک مادّی اور جسمانی وجود  ہو، اُس کی ہم جنس کوئی اُس کی بیوی بھی ہو، اور اُس کے جسم سے کوئی مادّہ بھی خارج ہو۔
سوم یہ کہ تَوالُد و تناسُل کا سلسلہ جہاں بھی ہے اُس کی علّت یہ ہے کہ افراد فانی ہوتے ہیں اور اُن کی جنس کے باقی رہنے  کے لیے ناگزیر ہوتا ہے کہ اُن سے اولاد پیدا ہو جس سے اُن کی نسل آگے چلے۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کر نے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذاتِ خود معاذ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذاتِ خدا۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی ابتدا اور انتہا ہو۔  کیونکہ توالُدوتناسُل پر جن اجناس کی بواء کا انحصار ہوتا ہے اُن کے افراد نہ اَزَلی ہوتے ہیں نہ اَبَدی۔
چہارم یہ کہ کسی کو متَبنّٰی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لاولد شخص اپنی زندگی میں کسی مددگار کا ، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، اُس ذاتِ پاک کی طرف لازماًوہی سب کمزوریاں  منسوب کرتا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں۔
اِن تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اَحَد اور اَلصَّمَد کہنے سے ہی کٹ جاتی ہے ، لیکن اُس کے بعد یہ ارشاد  فرمانے سے کہ  ”نہ اُس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد“، اِس معاملہ میں کسی اشتباہ کی  گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ پھر چونکہ ذاتِ باری کے حق میں یہ تصور ات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف سورۂ اخلاص ہی میں اُن کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں  فرمایا ، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے  تا کہ لوگ حقیقت  کو پوری طرح سمجھ لیں۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں:

اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ، سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ ،م لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِیْ الاَرْضِ (النساء ۔ ۱۷۱)
”اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ پاک ہے اِس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو ۔ جو کچھ آسمانوں  میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اُس کی مِلک ہے۔“

اَلَآ اِنَّہُمْ مِنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللہُ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ (الصٰفٰت، ۱۵۲-۱۵۱)
”خوب سُن رکھو، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے  یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں۔“

 وَجَعَلُوْ ا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِنَّۃّ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۔ (الصّٰفٰت۔ ۱۵۸)
” اِنہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ (مجرموں  کی حیثیت سے) پیش کیے جانے والے ہیں۔“

وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءً، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ۔ ( الزُّخْرُف۔ ۱۵)
”لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جُز بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے۔“

وَجَعَلُوْ ا لِلّٰہِ شُرَکَآ ءَ الّجِنِّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَ قُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ، بَدِیْعُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ، اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَہٗ صَا حِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شِیْءٍ۔ (الانعام۔ ۱۰۱-۱۰۰)
”اور لوگوں نے جُنّوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا ، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے۔ اور اُنہوں نے بے جانے بوجھے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو وہ کہتے ہیں۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اُس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اُس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے۔ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔“

وَقَا لُوا ا تَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عَبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ۔ (الانبیآء ۔ ۲۶)
”اور اِن لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ پاک ہے وہ ۔ بلکہ (جن  کو یہ اُس کی اولاد کہتے ہیں) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے۔“

وَقَا لُوا ا تَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ، ھُوَ الْغَنِیُّ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَ کُمْ مِنْ سُلْطٰنٍ بِھٰذَا۔ اَتَقُوْلُوْنَ عَلیَ اللہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (الانبیآء ۔ ۲۶)
”لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، سبحان اللہ ! وہ تو بے نیاز ہے۔ آسمانوں  میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُس کی مِلک ہے ۔ تمہارے پاس اِس قول کی آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے؟“

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ ۔  (بنی اسرائیل۔ ۱۱۱)
”اور (اے نبی) کہو، تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ و ہ عاجز ہے کہ کوئی اُس کا پُشتیبان ہو۔“

مَا ا تَّخَذَ اللہُ مِن وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ ۔ (المؤمنون۔۹۱)
”اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا  خدا اس کے ساتھ نہیں ہے۔“

اِن آیات  میں ہر پہلو سے اُن لوگوں کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے  جو اللہ کے لیے نَسبی اولاد یا متبنّٰی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں، اور اُس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کر دیے گئے ہیں ۔ یہ اور اِسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں ہیں، سورۂ اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں۔