اس رکوع کو چھاپیں

سورة اللھب حاشیہ نمبر۴

اصل الفاظ ہیں حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ ۔ جن کا لفظی ترجمہ  ہے ” لکڑیاں ڈھونے والی“۔ مفسّرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، ابن زیدؓ، ضَحّاک اور ربیع بن انس کہتے ہیں کہ وہ راتوں کو خاردار درختوں کی ٹہنیاں لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دروازے پر ڈال دیتی تھی ، اس لیے اس کو لکڑیاں ڈھونے  والی کہا گیا ہے۔ قَتادہ ، عِکْرِ مَہ، حسن بصری، مجاہد اور سُفیان ثَوری کہتے ہیں کہ وہ لوگوں میں فساد ڈلوانے کے لیے چُغلیاں کھاتی پھرتی تھی، اس لیے اسے عربی محاورے  کے مطابق لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو اِدھر کی بات اُدھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو، لکڑیاں ڈھونے والا کہتے ہیں۔ اِس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ کے معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں ”بی جمالو“ کے معنی ہیں۔ سعید بن جُبَیر کہتے ہیں کہ جو شخص گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اُس کے متعلق  عربی زبان میں بطور محاورہ کہا جاتا ہے فُلَانٌ یَّحْطَتِبُ عَلیٰ ظَھْرِ ہ۔ (فلاں شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد رہا ہے)۔ پس حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں گناہوں کا بوجھ ڈھونے والی۔ ایک اور مطلب مفسّرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں اُس کا حال ہوگا، یعنی وہ لکڑیاں لا لا کر اُس آگ میں ڈالے گی جس میں ابو لہب جل رہا ہو گا۔