اس رکوع کو چھاپیں

سورة اللھب حاشیہ نمبر۱

اس شخص کا اصل نام عبد العُزّیٰ تھا ، اور اسے ابو لہب  اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا۔ لہب آگ کے شُعلے کو کہتے ہیں  اور ابو لہب کے معنی ہیں شُعلہ رو۔ یہاں اُس کا ذِکر اُس کے نام کے بجائے اُس کی کُنّیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت  ہی سے معروف تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبد العُزّیٰ (بندۂ عُزّیٰ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا  کہ اُسے اِس نام سے یاد کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اُس کا جو انجام اِس سورہ میں بیان کیا گیا ہے اُس کے ساتھ اُس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبْ کے معنی بعض مفسرین نے  ”ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ“ بیان کیے ہیں اور وَتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ  ”وہ ہلاک ہو جائے“ یا  ”وہ ہلاک ہو گیا“۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اُس کو دیا گیا ہو، بلکہ ایک پیشنگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے ، گویا اُس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے  وہ ہو چکی ۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اِس سورہ میں چند سال پہلے بیان کیا جا چکا تھا۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے، بلکہ کسی شخص  کا اپنے اُس مقصد میں قطعی ناکام ہو جانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا  دیا تھا۔ لیکن اِس سورہ کے نزول  پر سات آٹھ سال  ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے  جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے ۔ مکّہ میں جب اِس شکست کی خبر پہنچی تو اُس کو اتنا  رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی۔ اُسے عَدَسَہ (Malignant Pustule)   کی بیماری  ہو گئی جس کی وجہ سے  اُس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں چھُوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی۔ آخر کار  جب لوگوں نے اس کے بیٹوںً کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور اُنہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا۔ اور دوسری روایت  یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔ اُس کی مزیداور مکمّل شکست اِس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ  روکنے کے لیے اُس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درّہ ہجرت کر کے مکّہ سے مدینے پہنچیں اور اسلام لائیں۔ پھر فتح مکّہ کے موقع پر اُس کے دونوں بیٹے عُتْبہ اور مُعَتَّب حضر ت عباس ؓ کی وساطت سے حضور ؐ کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لا کر انہوں نے آپ ؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔