اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکوثر حاشیہ نمبر۴

ھُوَ الْاَبْتَر۔”وہی اَبْتَر ہے“ فرمایا گیا ہے ، یعنی وہ آپ کو ابتر کہتا ہے، لیکن حقیقت  میں اَبْتَر وہ خود ہے۔ ابترکی کچھ تشریح ہم اِس  سے پہلے اس سورۃ کے دیباچے میں کر چکے ہیں۔ یہ لفظ بَتَر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔ مگر محاورے میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حدیث میں نماز کی اُس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جائے بُتَیراء کہا گیا ہے ، یعنی اکیلی رکعت۔ ایک اور حدیث میں ہے کلّ امر ذی بالٍ لایُبدأ فیہ بحمد اللہ فھو ا بتر۔” ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے“۔ یعنی اس کی جَڑ کٹی ہوئی ہے ، اسے کوئی استحکام نصیب نہیں ہے، یا اس کا انجام اچھا نہیں ہے ۔ نامراد آدمی کو بھی ابتر کہتے ہیں۔ ذرائع و وسائل سے محروم ہو جانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے۔ جس شخص کے لیے کسی خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں منقطع ہو گئی ہوں  وہ بھی ابتر ہے۔ جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا  رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے۔ جس آدمی کو کوئی اولادِ نرینہ نہ ہو یا مر گئی ہو، اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا  باقی نہیں رہتا اور مرنے کے بعد وہ بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔ قریب قریب اِن سب معنوں میں کفّارِ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی، ابتر تم نہیں ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن  ابتر ہیں۔ یہ محض کوئی”جوابی حملہ“ نہ تھا، بلکہ درحقیقت یہ قرآن کی بڑی اہم پیشنگوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ جس وقت یہ پیشنگوئی کی گئی تھی اُس وقت لوگ حضورؐ ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں گے جو نہ صرف مکّہ میں بلکہ پورے ملک عرب میں نامور تھے، کامیاب تھے، مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں نہیں رکھتے تھے بلکہ سارے ملک میں جگہ جگہ ان کے اَعوان  و انصار موجود تھے، تجارت کے اجارہ دار اور حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے۔ لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے۔ یا تو وہ وقت تھا کہ غزوۂ اَحزاب (سن ۵ ہجری) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبائل کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضور ؐ کو محصور   ہو کر ، شہر کے گرد خندق کھود کر  مدافعت کرنی پڑی تھی، یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ سن ۸ ہجری میں جب آپ نے مکّہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انہیں بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضور ؐ کے ہاتھ میں تھا، ملک کے گوشے گوشے  سے قبائل کے وفود آکر بیعت کر رہے تھے، اور آپ کے دشمن بلکل بے بس اور بے یار و مددگار ہو کر رہ گئے تھے۔ پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں باقی رہی بھی تو اُن  میں سے آج کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عُقْبہ بن ابی مُعَیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں سے ہے ، اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جا رہا ہے ۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے۔ لاکھوں انسان آپؐ ہی سے نہیں بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں کے خاندانوں تک سے انتساب کو باعث عزّو شرف سمجھتے ہیں۔ کوئی سیّلہ ہے، کوئی علوی ہے، کوئی عباسی ہے، کوئی ہاشمی ہے، کوئی صدیقی ہے، کوئی فاروقی ، کوئی عثمانی، کوئی زُبیری، اور کوئی انصاری۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں پایا جاتا۔ تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ ابتر حضورؐ نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔