اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکوثر حاشیہ نمبر۱

کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار، شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں  کیا جا سکتا۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لُغوی معنی  تو بے انتہا کثرت  کے ہیں، مگر جس موقع پر اِس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اُس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت ، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو اِفراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو، اور اُس سے مُراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کو نہیں  بلکہ بے شمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے۔دیباچے میں اِس سورہ کا جو پَس منظر ہم نے بیان کیا ہے اُس پر ایک مرتبہ نگاہ ڈال کر دیکھیے۔ حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر حیثیت سے تباہ ہو چکے ہیں۔ قوم سےکٹ کر بے یار و مددگار رہ  گئے۔ تجارت برباد ہو گئی۔ اولادِ نرینہ تھی جس سے آگے اُن کا نام چل سکتا تھا ۔ وہ بھی وفات پا گئی۔ بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گِنے چُنے آدمی چھوڑ کر مکّہ تو درکنار ، پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے اُن کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دوچار  رہیں اور جب وفات پا جائیں تو دنیا میں کوئی اُن کا نام لیوا بھی نہ ہو۔ اِس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا  کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا تو اِس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم برباد ہوگئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ بھی تم سے چھن گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتوں سے نواز دیا ہے۔ اس میں اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضورؐ کو بخشی گئیں۔ اس میں نبوت اور قرآن اور علم  اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئی ہیں۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے، عام فہم، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع ہ ہمہ گیر اصو ل تمام عالَم میں پھیل جانے اور ہمیشہ  پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس میں رفعِ ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت  حضور ؐ کا نام نامی چودہ برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہو رہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ ؐ کی دعوت سے  بالآخر ایک ایسی عالمگیر امّت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین ِ حق کی علمبردار بن گئی، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے، اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضورؐ نے اپنے آنکھوں سے اپنی حیاتِ مبارکہ  ہی میں دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ ؐ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہو گئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اِس میں یہ نعمت بھی شامل ہے  کہ اولاد نرینہ سے محروم ہو جانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا ، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپؐ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی فاطمہؓ سے آپ کو وہ جسمانی  اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایۂ افتخار ہی حضورؐ سے اس کا انتساب ہے۔
یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اِس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کس فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ  علیہ وسلم کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد  دو مزید ایسی نعمتیں بھی ہیں  جو آخرت میں اللہ تعالیٰ آپؐ کو دینے والا ہے۔ اُن کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اُن کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں ۔ ایک حوضِ کوثر جو قیامت کے روز میدانِ حشر میں آپؐ کو ملے گا۔ دوسرے نہرِ کوثر جو جنت میں آپ ؐ کو عطا فرمائی جائے گی ۔ اِن دونوں کے متعلق اِس کثرت سے احادیث حضورؐ سے  منقول ہوئی ہیں  اور اتنے کثیر راویوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ اُن کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔
حوضِ کوثر کے متعلق حضور ؐ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے:
(۱) یہ حوض قیامت کے روز آپؐ کو عطا ہو گا اور اُس سخت وقت میں ، جبکہ ہر ایک العَطَش العَطَش کر رہا ہو گا، آپؐ کی امت آپ کے پاس اُس پر حاضر ہو گی اور اس سے سیراب ہو گی۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اُس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے۔ آپ کا ارشاد ہے  ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیٰمۃ۔” وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہو گی“۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، ابوداؤد، کتاب السّنہ)۔ اَنَا فَرَ طکم علی الحوض۔” میں تم سب سے پہلے پہنچا ہوا ہوں گا“۔ (بخاری، کتاب الرّقاق اور کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد، مُسند احمد، مرویّاتِ عبد اللہ بن مسعودؓ، عبد اللہ بن عباس ؓ و ابوہریرہؓ)۔ انی فرط لکم و انا شھید علیکم و انی واللہ لا نظر الیٰ حوضی الاٰ ن۔” میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اِس وقت دیکھ رہا ہوں“۔ (بخاری ، کتاب الخبائز، کتاب المَغازی، کتاب الرّقاق)۔ انصار کو مکاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا  انکم ستلقون بعدی اَثَرۃ فاصبرو ا حتّٰی تلقو نی علی الحوض۔” میں قیامت کے  روز حوض کے وسط  کے پاس ہوں گا“ (مسلم، کتاب الفضائل)۔ حضرت ابو بَرْزہؓ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا  ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں، پانچ نہیں، بار بار سنا ہے، جو اُس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی پینا نصیب نہ کرے(ابوداؤد، کتاب السنّہ)۔ عبید اللہ بن زیاد حوض کے  بارے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تحا حتیٰ کہ اس نے حضرت ابو بَرْزہؓ اسلمی ، براء ؓ بن عازب اور عائذ ؓ بن عَمْرو کی سب روایات کو جُھٹلادیا۔ آخر کار ابو سَبْرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں  حضورؐ کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا اِن موعد کم حوضی” خبردار رہو، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے“ (مسند احمد، مروایت عبد اللہ ؓ بن عمر و بن عاص)۔
(۲) اُس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف  بیان کی گئی ہے ۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ اَیلہ (اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ اَیلات) سے یمن کے صنعاء تک ، یا ایلہ سے عدن تک ، یا عَمّان سے عدن تک طویل ہو گا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا اَیلہ سے حُجفہ (جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام) تک کا فاصلہ ہے۔ (بخاری، کتاب الرّقاق، ابوداؤد، الطَّیالِسی، حدیث نمبر ۹۹۵۔ مُسند احمد، مرویات ابوبکر صدیق ؓ و عبد اللہ ؓ بن عمر۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ و کتاب و  الفضائل۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزُّہد) ۔ اِس سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوضِ کوثر میں تبدیل کر دیا جائے گا، واللہ اعلم بالصواب۔
(۳) اس حوض کے متعلق حضور ؐ نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر ( جس کا ذکر آگے آرہا ہے) سے پانی لا کر ڈالا جائے گا۔ یشخب فیہ میزابان من الجنّۃ ، اور دوسری روایت میں ہے یغت فیہ میزابان یمدّانہ من الجنّۃ ، یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لا کر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی ۔(مسلم ، کتاب الفضائل)۔ ایک اور  روایت میں ہے یُفتح نھر من الکوثر ا لی الحوض، ”جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض  کی طرف کھول دی جائے گی(مُسند احمد ، مرویات عبد اللہ بن مسعودؓ)۔
(۴) اس کی کیفیت حضورؐ نے  یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے اور بعض روایات میں ہے  چاندی سے اور بعض میں برف سے) زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، اس کی تہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہو گی، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں۔ جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا  وہ پھر کبھی سیراب نہ ہو گا۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت  احادیث میں منقول ہوئی ہیں (بخاری، کتاب الرّقاق، مسلم، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعودؓ، ابن عمر ؓ، و عبداللہ ؓ بن عَمْرو بن العاص۔ ترمذی، ابواب صفتہ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزھد۔ ابوداؤد،  طَیالِسی، حدیث ۹۹۵ و ۲۱۳۵)۔
(۵) اس کے بارے میں حضورؐ نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اُس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر اُنہیں  نہ آنے دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب ہیں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے۔ پھر میں بھی اُن کو  دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے (بخاری کتب الرقاق، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعودؓ  و ابو ہریرہؓ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک، ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی  دردناک الفاظ میں ہے۔ اس میں حضور ؐ فرماتے ہیں  الاونی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودواوجھی، الا و انِّی مستنقذ اُنا سًا و مستنقذ اناس منّی فاقول یا رب اسیحابی، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعد ا۔ ”خبردار رہو، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ اُس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا۔ خبردار رہو کچھ لوگوں کو میں چھُڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھُڑائے جائیں گے۔ میں کہوں گا کہ اے پروردگار، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ وہ فرمائے گا  تم  نہیں جانتے اِنہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں“۔ ابن ماجہ  کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضورؐ نے عَرَفات کے خطبے میں فرمائے تھے)۔
(۶) اسی طرح حضور ؐ نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردّو بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے ربّ یہ تو میرے ہیں، میری امت کے لو گ ہیں۔ جواب ملے گا  آپ کو معلوم نہیں کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور اُلٹے ہی پھر تے چلے گئے۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں (بخاری، کتاب المُسافات، کتاب الرقاق، کتاب الفتن، مسلم کتاب الطہارۃ، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الفضائل، ابن ماجہ، کتاب الزہد۔ مُسند احمد، مرویات ابن عباسؓ)۔
اس حوض کی روایات ۵۰ سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں ، اور سلف نے بالعموم  اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے بابٌ فی الحوض و قول اللہ اِنَّا  اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ اور حضرت انس  کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضورؐ نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امّتی۔” وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہو گی۔“

جنت میں کوثر نامی جو نہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے۔ حضرت انسؓ  سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرمانے ہیں ( اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں) کہ معراج کے موقع پر حضورؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور اس موقع پر آپؐ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے تُبّے بنے ہوئے تھے۔ اس کی تہ کی مٹی مشکِ اَذْفَر کی تھی۔ حضور ؐ نے جبریل ؑ سے، یا اُس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی، پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا  یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے (مُسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابوداؤد طیالسی، ابن جریر)۔ حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا ( یا ایک شخص نے پوچھا) کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا  ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں عطا کی ہے۔ اس  کی مٹی مشک ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مُسند احمد، ترمذی، ابن جریر، مُسند احمد کی ایک روایت  میں ہے کہ حضورؐ نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں)۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کےکنارے  سونے کے ہیں، وہ موتیوں اور ہیروں پر بہ رہی ہے( یعنی کنکریوں کی جگہ اس کی تہ میں یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں)، اس کی مٹی مشک سے زیادہ  خوشبودار ہے، اس کاپانی دودھ سے (یا برف سے) زیادہ سفید ہے، برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مُسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم، دارِمی، ابوداؤد طَیالِسی، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُوْیَہ، ابن ابی شَیْبَہ)۔ اُسامہ ؓ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حمزہؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ گھر پر نہ تھے۔ ان کی اہلیہ نے حضورؐ کی تواضع کی اور دورانِ گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس نام کوثر ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، اور اس کی زمین یا قوت و مرجان اور زَبَر جَد اور موتیوں کی ہے (ابن جریر، ابن مُردُویَہ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے )۔ اِن مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ کے بکثرت اقوال  احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں و ہ کوثر سے مراد جنت کی  یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عبد اللہ ؓ بن عمر، حضرت عبد ؓ اللہ بن عباس ؓ، حضرت اَنَس ؓ بن مالک، حضرت عائشہ ؓ ، مجاہد اور ابو العالیہ  کے اقوال مسند احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن مردویہ، ابن جریر، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں۔