اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۲

اصل میں یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فرمایاگیا ہے۔ الدّیْن کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دینِ اسلام کے لیے بھی۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں، اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلۂ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں۔ ابن عباس ؓ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اکثر مفسّرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے۔ اور  دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کا مدّعا دین اسلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہو گا کہ اسلام اُس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اِس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے۔